نیندوں کا ایک عالم اسباب اور ہے
شاید کسی کی آنکھ میں اک خواب اور ہے
تو مجھ کو طاق سینہ میں رکھا ہوا نہ جان
میں جس میں جل رہا ہوں وہ محراب اور ہے
یوں ہی نہیں یہ ضربت تیشہ کی دستکیں
لگتا ہے اک فصیل پس باب اور ہے
لہرا رہا ہے سطح پہ مہتاب غوطہ زن
ہر چند ایک شہر تہہ آب اور ہے
پھوٹی ہیں جس جگہ مری آنکھوں کی کونپلیں
دل سے پرے وہ خطۂ شاداب اور ہے
کھویا ہوا ہوں نیند کے پردے کے اس طرف
لگتا ہے ایک خواب پس خواب اور ہے
کرنیں تو اک نگاہ سبک رو کی لہر ہیں
دنبالہ دارئ شب مہتاب اور ہے
تابش یہ تیرا عکس نہیں میری آنکھ میں
اس جھیل میں یہ پرتو زرتاب اور ہے
/عباس تابش/
(2)
یہ دیکھ مرے نقش کف پا مرے آگے
آگے بھی کہاں جاتا ہے رستہ مرے آگے
اے تشنہ لبی تو نے کہاں لا کے ڈبویا
اس بار تو دریا بھی نہیں تھا مرے آگے
ایسے نہیں مانوں گا میں ہستی کا توازن
تقطیع کیا جائے یہ مصرعہ مرے آگے
اے قامت دلدار گزشتہ کی معافی
پہلے کوئی معیار نہیں تھا مرے آگے
کیوں کر سخن آغاز کیا جائے کہ وہ آنکھ
لا رکھتی ہے اجداد کا لکھا مرے آگے
حیرت ہے کہ دیتی ہیں مجھے طعنۂ وحشت
ترتیب سے رکھی ہوئی اشیاء مرے آگے
میں جانتا ہوں اس کے سبھی بھید سبھی بھاؤ
دنیا نے کبھی رقص کیا تھا مرے آگے
میں عشق کے آداب ذرا سیکھ لوں پہلے
بیٹھے گی ادب سے یہی دنیا مرے آگے
/عباس تابش/
0 Comments