Urdu ghzal



نیندوں کا ایک عالم اسباب اور ہے

شاید کسی کی آنکھ میں اک خواب اور ہے 


تو مجھ کو طاق سینہ میں رکھا ہوا نہ جان 
میں جس میں جل رہا ہوں وہ محراب اور ہے 

یوں ہی نہیں یہ ضربت تیشہ کی دستکیں 
لگتا ہے اک فصیل پس باب اور ہے 

لہرا رہا ہے سطح پہ مہتاب غوطہ زن 
ہر چند ایک شہر تہہ آب اور ہے 

پھوٹی ہیں جس جگہ مری آنکھوں کی کونپلیں 
دل سے پرے وہ خطۂ شاداب اور ہے 

کھویا ہوا ہوں نیند کے پردے کے اس طرف 
لگتا ہے ایک خواب پس خواب اور ہے 

کرنیں تو اک نگاہ سبک رو کی لہر ہیں 
دنبالہ دارئ شب مہتاب اور ہے 

تابش یہ تیرا عکس نہیں میری آنکھ میں 
اس جھیل میں یہ پرتو زرتاب اور ہے

/عباس تابش/
                            
(2)

یہ دیکھ مرے نقش کف پا مرے آگے 
آگے بھی کہاں جاتا ہے رستہ مرے آگے 

اے تشنہ لبی تو نے کہاں لا کے ڈبویا 
اس بار تو دریا بھی نہیں تھا مرے آگے 

ایسے نہیں مانوں گا میں ہستی کا توازن 
تقطیع کیا جائے یہ مصرعہ مرے آگے 

اے قامت دلدار گزشتہ کی معافی 
پہلے کوئی معیار نہیں تھا مرے آگے 

کیوں کر سخن آغاز کیا جائے کہ وہ آنکھ 
لا رکھتی ہے اجداد کا لکھا مرے آگے 

حیرت ہے کہ دیتی ہیں مجھے طعنۂ وحشت 
ترتیب سے رکھی ہوئی اشیاء مرے آگے 

میں جانتا ہوں اس کے سبھی بھید سبھی بھاؤ 
دنیا نے کبھی رقص کیا تھا مرے آگے 

میں عشق کے آداب ذرا سیکھ لوں پہلے 
بیٹھے گی ادب سے یہی دنیا مرے آگے

/عباس تابش/




Post a Comment

0 Comments