عقل و دانش کو زمانے سے چھپا رکھا ہےخود کو دانستہ ہی دیوانہ بنا رکھا ہے
- گھر کی ویرانیاں لے جائے چرا کر کوئی
- اسی امید پہ دروازہ کھلا رکھا ہے
- بن گئے اونچے محل ان کی عبادت گاہیں
- نام دولت کا جہاں سب نے خدا رکھا ہے
- قابل رشک ہے وہ دختر مفلس جس نے
- تنگ دستی میں بھی عزت کو بچا رکھا ہے
- جس کے محلوں میں چراغوں کا نہ تھا کوئی شمار
- اس کی تربت پہ فقط ایک دیا رکھا ہے
- اس سے بڑھ کر تری یادوں کی کروں کیا تعظیم
- تیری یادوں میں زمانے کو بھلا رکھا ہے
- سرخ رو ہو گئیں تنہائیاں میری دانا
- اس نے کاندھے پہ مرے دست حنا رکھا ہے
یہ بات سچ ہے کہ تیرا مکان اونچا ہے تو یہ نہ سوچ ترا خاندان اونچا ہے
کمال کچھ بھی نہیں اور شہرتوں کی طلب
سنبھل کے تیر چلانا نشان اونچا ہے
کہیں عذاب نہ بن جائے اس کا سایہ بھی
ستون ٹوٹے ہوئے سائبان اونچا ہے
مجھے یقین ہے تو شرط ہار جائے گا
کہ دسترس سے تری آسمان اونچا ہے
وہ قاتلوں کو چھڑا لائے گا عدالت سے
ہے اس کی بات مدلل بیان اونچا ہے
قبول کرتا نہیں یہ دلوں کے رشتوں کو
سماج تیرے مرے درمیان اونچا ہے
اسی غرور میں دانا سروں سے چھت بھی گئی
ترے مکان سے میرا مکان اونچا ہے
0 Comments